دیار جسم سے صحرائے جاں تک
اڑوں میں خاک سا آخر کہاں تک
کچھ ایسا ہم کو کرنا چاہیئے اب
اتر آئے زمیں پر آسماں تک
بہت کم فاصلہ اب رہ گیا ہے
بپھرتی آندھیوں سے بادباں تک
میسر آگ ہے گل کی نہ بجلی
اندھیرے میں پڑے ہیں آشیاں تک
یہ جنگل ہے نہایت ہی پر اسرار
قدم رکھتی نہیں اس میں خزاں تک
وہیں تک کیوں رسائی ہے ہماری
نقوش پا زمیں پر ہیں جہاں تک
نکل آؤ حصار خامشی سے
جو دل میں ہے وہ لاؤ بھی زباں تک
یہاں شیطاں پہ ہے اک لرزہ طاری
نہیں اٹھتا چراغوں سے دھواں تک

غزل
دیار جسم سے صحرائے جاں تک
رفیق راز