دیار ہوش کی پہلے جنوں خبر لینا
اڑا کے دھول نہ مٹی خراب کر لینا
جفا بھی ہو تو وہ تم جانو اور ہم جانیں
نہ ہو کسی کو خبر اس طرح خبر لینا
نشانی لے کے چلیں گے وطن کو غربت کی
کہیں سے دشت کا دامن ذرا کتر لینا
نیاز حسن بھی ہے زندگی کے دھندوں میں
کسی پہ مرنے کی فرصت ملے تو مر لینا
اسی جہان سے ملتا ہے درس عبرت بھی
ہزار شرط ہے لینا نہ کچھ مگر لینا
نہ مے کشی نہ عبادت ہماری عادت ہے
کہ سامنے کوئی کام آ گیا تو کر لینا
وفا خراب ہے رفتار بحر ہستی کی
ابھی تو ڈوب ہی جا پھر کبھی ابھر لینا
جناب شیخ تو بار گنہ سے گھبرائے
ہمی اٹھائیں گے ناطقؔ ذرا ادھر لینا
غزل
دیار ہوش کی پہلے جنوں خبر لینا
ناطق گلاوٹھی