دیار ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں
تجھے بھی میں تری یادوں میں کھو کر بھول جاتا ہوں
عجب دن تھے کہ برسوں ضرب خوشبو یاد رہتی تھی
عجب دن ہیں کہ فوراً زخم خنجر بھول جاتا ہوں
گزر جاتا ہوں گھر کے سامنے سے بے خیالی میں
کبھی دفتر کے دروازے پہ دفتر بھول جاتا ہوں
اسی باعث بڑی چاہت سے ملتا ہوں کہ میں اکثر
جدا ہوتے ہی چہرہ نام پیکر بھول جاتا ہوں
مجھے پتھر کی صورت ہی سہی زندہ تو رہنا ہے
سو میں ہر واقعہ منظر بہ منظر بھول جاتا ہوں
وہ سب کچھ یاد رکھتا ہوں بھلانا جس کا بہتر ہو
مگر جو یاد رکھنا ہو سراسر بھول جاتا ہوں
غزل
دیار ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں
اسلم کولسری