دیار دل میں نیا نیا سا چراغ کوئی جلا رہا ہے
میں جس کی دستک کا منتظر تھا مجھے وہ لمحہ بلا رہا ہے
پھر ادھ کھلا سا کوئی دریچہ مرے تصور پہ چھا رہا ہے
یہ کھویا کھویا سا چاند جیسے تری کہانی سنا رہا ہے
وہ روشنی کی طلب میں گم ہے میں خوشبوؤں کی تلاش میں ہوں
میں دائروں سے نکل رہا ہوں وہ دائروں میں سما رہا ہے
وہ کم سنی کی شفیق یادیں گلاب بن کر مہک اٹھی ہیں
اداس شب کی خموشیوں میں یہ کون لوری سنا رہا ہے
سنو سمندر کی شوخ لہرو ہوائیں ٹھہری ہیں تم بھی ٹھہرو
وہ دور ساحل پہ ایک بچہ ابھی گھروندے بنا رہا ہے
غزل
دیار دل میں نیا نیا سا چراغ کوئی جلا رہا ہے
اقبال اشہر