دوا بغیر کوئی طفل مر گیا تو کیا ہوا
بس ایک پھول ہی تو تھا بکھر گیا تو کیا ہوا
کبھی کبھی تو روشنی بھی اک عذاب جاں ہوئی
وہ چاندنی سے تیری کوکھ بھر گیا تو کیا ہوا
نہ رات ہی سنور گئی نہ روشنی ہی مر گئی
اندھیری باؤلی میں چاند اتر گیا تو کیا ہوا
کمال جگنوؤں کا تھا کہ روشنی میں کھو گئے
فریب اپنے سائے ہی سے ڈر گیا تو کیا ہوا
مرے لیے تو خواب ایک چشمۂ حیات تھا
کسی کو خواب خواب تھا بکھر گیا تو کیا ہوا
گزرتے موسموں کے قافلے تو روندتے رہے
غریب کوئی صحن سے گزر گیا تو کیا ہوا
نہ میں کوئی سوار ہوں نہ کوئی مال دار ہوں
ادھر رہا تو کیا ہوا ادھر گیا تو کیا ہوا
غزل
دوا بغیر کوئی طفل مر گیا تو کیا ہوا
باقر نقوی