دور نگاہ ساقی مستانہ ایک ہے
پیمانے دو ہیں گردش پیمانہ ایک ہے
پیتا ہوں گھونٹ گھونٹ میں سانسوں کے ساتھ ساتھ
ساقی کا اور عمر کا پیمانہ ایک ہے
جس اشک میں ہو اشک ندامت وہی ہے اشک
موتی بہت ہیں گوہر یک دانہ ایک ہے
کثرت کی شان اور ہے وحدت کا رنگ اور
آباد ہے جو ایک تو ویرانہ ایک ہے
تفریق حسن شمع و گل میں ذرا نہیں
سوز و گداز بلبل و پروانہ ایک ہے
جب سن لیا فراق کا قصہ تو کہہ دیا
مجنوں کا اور آپ کا افسانہ ایک ہے
تم کو اگر ہے اپنی دل آرائیوں پہ ناز
کیفیؔ بھی اپنے نام کا مستانہ ایک ہے

غزل
دور نگاہ ساقی مستانہ ایک ہے
چندر بھان کیفی دہلوی