دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
اک شہر آرزو پہ بھی ہونا پڑا خجل
ھل من مزید کہتی ہے رحمت دعا کے بعد
لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں
آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
غیروں پہ لطف ہم سے الگ حیف ہے اگر
یہ بے حجابیاں بھی ہوں عذر حیا کے بعد
ممکن ہے نالہ جبر سے رک بھی سکے اگر
ہم پر تو ہے وفا کا تقاضا جفا کے بعد
ہے کس کے بل پہ حضرت جوہرؔ یہ روکشی
ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد
غزل
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
محمد علی جوہرؔ