EN हिंदी
دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو | شیح شیری
daur-e-falak jab dohraata hai mausam-e-gul ki raaton ko

غزل

دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو

ناصر کاظمی

;

دور فلک جب دہراتا ہے موسم گل کی راتوں کو
کنج قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو

ریگ رواں کی نرم تہوں کو چھیڑتی ہے جب کوئی ہوا
سونے صحرا چیخ اٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو

آتش غم کے سیل رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو

مے خانے کا افسردہ ماحول تو یوں ہی رہنا ہے
خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو

ناصرؔ میرے منہ کی باتیں یوں تو سچے موتی ہیں
لیکن ان کی باتیں سن کر بھول گئے سب باتوں کو