دولت ملی جہان کی نام و نشاں ملے
سب کچھ ملا ہمیں نہ مگر مہرباں ملے
پہلے بھی جیسے دیکھ چکے ہوں انہیں کہیں
انجان وادیوں میں کچھ ایسے نشاں ملے
بڑھتا گیا میں منزل محبوب کی طرف
حائل اگرچہ راہ میں سنگ راں ملے
رونا پڑا نصیب کے ہاتھوں ہزار بار
اک بار مسکرا کے جو تم مہرباں ملے
ہم کو خوشی ملی بھی تو بس عارضی ملی
لیکن جو غم ملے وہ غم جاوداں ملے
باقی رہے گی حشر تک ان کے کرم کی یاد
مجھ کو رہ حیات میں جو مہرباں ملے
پھر کیوں کرے تلاش کوئی اور آستاں
وہ خوش نصیب جس کو ترا آستاں ملے
اہل ستم کی دل شکنی کا سبب ہوا
دل کا یہ حوصلہ کہ غم بے کراں ملے
ساقی کی اک نگاہ سے کایا پلٹ گئی
زاہد جو میکدے میں ملے نوجواں ملے
دیر و حرم کے لوگ بھی درماں نہ کر سکے
وہ بھی اسیر کشمکش این و آں ملے
نظریں تلاش کرتی رہیں جن کو عمر بھر
درشنؔ کو وہ سکون کے لمحے کہاں ملے
غزل
دولت ملی جہان کی نام و نشاں ملے
درشن سنگھ