دستکیں سنتے ہیں سب در کھولتا کوئی نہیں
خوف گھر میں اس قدر ہے بولتا کوئی نہیں
اک ہجوم طائراں ہے بے سکت بے حوصلہ
بال و پر ہوتے ہوئے پر تولتا کوئی نہیں
اے نگار صبح تیری کار فرمائی کی خیر
اب رگ و پے میں اندھیرے گھولتا کوئی نہیں
اے کنار بحر یہ بے اعتنائی کس لئے
سیپیاں موجود ہیں اور رولتا کوئی نہیں
استقامت ہے قیامت کی سر دریائے غم
ہر سفینہ موج پر ہے ڈولتا کوئی نہیں
غزل
دستکیں سنتے ہیں سب در کھولتا کوئی نہیں
محسن احسان