EN हिंदी
دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایا ہے کہ میں ہوں | شیح شیری
dastak si ye kya thi koi saya hai ki main hun

غزل

دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایا ہے کہ میں ہوں

رضی اختر شوق

;

دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایا ہے کہ میں ہوں
اک شخص مری طرح کا آیا ہے کہ میں ہوں

سب جیسا ہوں لیکن مرے تصویر گروں نے
چہرہ مرا اس رخ سے بنایا ہے کہ میں ہوں

کیا نیند تھی وہ اپنے نہ ہونے کے نشہ کی
کیوں یہ مرے ہونے نے بتایا ہے کہ میں ہوں

میں ہوں کہ ہیں موجود مرے دیکھنے والے
خود مجھ کو تو کم کم نظر آیا ہے کہ میں ہوں

میں ہوں سو یہ خوشبو تری آتی رہی مجھ سے
کچھ تیرے بھی ہونے سے سجھایا ہے کہ میں ہوں

میں اس میں مگن وہم ہے یا خواب ہے ہستی
لوگوں نے مگر دام بچھایا ہے کہ میں ہوں

دیکھوں تو مرے عکس سے کیا کہتا ہے دریا
پل بھر کو تو لہروں نے بتایا ہے کہ میں ہوں

کچھ رنگ لگائے بھی ہیں تصویر گروں نے
یا ہنس کے یہ کاغذ ہی اڑایا ہے کہ میں ہوں

کچھ کم تو نہیں یہ مرے ہونے کی گمراہی
اس جرم میں کس کس نے ستایا ہے کہ میں ہوں