دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایا ہے کہ میں ہوں
اک شخص مری طرح کا آیا ہے کہ میں ہوں
سب جیسا ہوں لیکن مرے تصویر گروں نے
چہرہ مرا اس رخ سے بنایا ہے کہ میں ہوں
کیا نیند تھی وہ اپنے نہ ہونے کے نشہ کی
کیوں یہ مرے ہونے نے بتایا ہے کہ میں ہوں
میں ہوں کہ ہیں موجود مرے دیکھنے والے
خود مجھ کو تو کم کم نظر آیا ہے کہ میں ہوں
میں ہوں سو یہ خوشبو تری آتی رہی مجھ سے
کچھ تیرے بھی ہونے سے سجھایا ہے کہ میں ہوں
میں اس میں مگن وہم ہے یا خواب ہے ہستی
لوگوں نے مگر دام بچھایا ہے کہ میں ہوں
دیکھوں تو مرے عکس سے کیا کہتا ہے دریا
پل بھر کو تو لہروں نے بتایا ہے کہ میں ہوں
کچھ رنگ لگائے بھی ہیں تصویر گروں نے
یا ہنس کے یہ کاغذ ہی اڑایا ہے کہ میں ہوں
کچھ کم تو نہیں یہ مرے ہونے کی گمراہی
اس جرم میں کس کس نے ستایا ہے کہ میں ہوں
غزل
دستک سی یہ کیا تھی کوئی سایا ہے کہ میں ہوں
رضی اختر شوق