EN हिंदी
دستک ہوا نے دی ہے ذرا غور سے سنو | شیح شیری
dastak hawa ne di hai zara ghaur se suno

غزل

دستک ہوا نے دی ہے ذرا غور سے سنو

حمایت علی شاعرؔ

;

دستک ہوا نے دی ہے ذرا غور سے سنو
طوفاں کی آ رہی ہے صدا غور سے سنو

شاخیں اٹھا کے ہاتھ دعا مانگنے لگیں
سرگوشیاں چمن میں ہیں کیا غور سے سنو

محسوس کر رہا ہوں میں کرب شکستگی
تم بھی شگفت گل کی صدا غور سے سنو

گل چیں کو دیکھ لیتی ہے جب کوئی شاخ گل
دیتی ہے بد دعا کہ دعا غور سے سنو

یہ اور بات خشک ہیں آنکھیں مگر کہیں
کھل کر برس رہی ہے گھٹا غور سے سنو

شاخوں سے ٹوٹتے ہوئے پتوں کو دیکھ کر
روتی ہے منہ چھپا کے ہوا غور سے سنو

یہ دشت بے کراں یہ پر اسرار خامشی
اور دور اک صدائے ذرا غور سے سنو

یہ بازگشت میری صدا کی ہے یا مجھے
آواز دے رہا ہے خدا غور سے سنو

بڑھتی چلی ہے ارض و سما میں کشیدگی
کونین میں ہے حشر بپا غور سے سنو

کب تک زمیں اٹھائے رہے آسماں کا بوجھ
اب ٹوٹتی ہے رسم وفا غور سے سنو

میں ٹوٹتا ہوں خیر مجھے ٹوٹنا ہی ہے
دھرتی چٹخ رہی ہے ذرا غور سے سنو

صحرا میں چیختے ہیں بگولے تو شہر شہر
اک شور ہے سکوت فزا غور سے سنو

شاعرؔ تراشتے تو ہو دل میں خدا کا بت
آوازۂ شکست انا غور سے سنو