دست و پا میں مرے حلقے جو یہ زنجیر کے ہیں
در حقیقت یہ کرشمے مری تقدیر کے ہیں
قابل داد نہیں کیا وہ مصور لوگو
شہر در شہر جو چرچے کسی تصویر کے ہیں
تشنہ لب جو لب دریا پہ بھی ہیں رہتے ہوئے
وہ ستائے ہوئے بگڑی ہوئی تقدیر کے ہیں
حوصلہ فتح کا ضامن ہوا کرتا ہے مگر
میرے دشمن ہیں کہ قائل مری شمشیر کے ہیں
غیر دانستہ نہیں ہیں مرے افسانے میں
وہ کئی لفظ جو تشنہ مری تفسیر کے ہیں
خوش اگر اپنی خطاؤں پہ ہو تم تو ہم بھی
ماننے والے ابھی عشق کی تاثیر کے ہیں
اس نے سونپی تھی جو بیٹوں کو وراثت میں کبھی
آج افسوں کہ ٹکڑے اسی جاگیر کے ہے
یہ ستارے نہیں طالبؔ کہ یہ ٹوٹے ہوئے خواب
کسی لیلیٰ کسی شیریں کے کسی ہیر کے ہیں
غزل
دست و پا میں مرے حلقے جو یہ زنجیر کے ہیں
ایاز احمد طالب