EN हिंदी
دست راحت نے کبھی رنج گراں باری نے | شیح شیری
dast-e-rahat ne kabhi ranj-e-giran-bari ne

غزل

دست راحت نے کبھی رنج گراں باری نے

غلام حسین ساجد

;

دست راحت نے کبھی رنج گراں باری نے
کر دیا ختم مجھے عشق کی بیماری نے

راس آئی ہے نہ آئے گی یہ دنیا لیکن
روک رکھا ہے مجھے کوچ کی تیاری نے

حرف اس پیکر گل پر نہ تھا آنے والا
اس کو شرمندہ کیا رسم دل آزاری نے

یونہی خوشبو سے معطر نہیں سانسیں میری
زلف لہرائی ہے آنگن میں کسی پیاری نے

ہاتھ کیا آئے گا اب جنگ کو جاری رکھ کر
فیصلہ کر بھی دیا شہ کی گرفتاری نے

قریۂ خاک سے نسبت کی تھی خواہش کس کو
مجھ کو زنجیر کیا اس کی طرف داری نے

خوش نہیں آیا مجھے باغ عدن بھی ساجدؔ
مار ڈالا ہے مجھے پھر مری ہشیاری نے