دست قاتل میں یہ شمشیر کہاں سے آئی
ناز کرتی مری تقدیر کہاں سے آئی
چاندنی سینے میں اتری ہی چلی جاتی ہے
چاند میں آپ کی تصویر کہاں سے آئی
اپنی پلکوں پہ سجا لائی ہے کس کے جلوے
زندگی تجھ میں یہ تنویر کہاں سے آئی
ہو نہ ہو اس میں چمن والوں کی سازش ہے کوئی
پھول کے ہاتھ میں شمشیر کہاں سے آئی
خواب تو خیر ہم اس بزم سے لے آئے تھے
لیکن اس خواب کی تعبیر کہاں سے آئی
خون حسرت ہے کہاں اور یہ اعزاز کہاں
اے حنا تجھ میں یہ توقیر کہاں سے آئی
دل سے اک آہ تو نکلی ہے شکیلہ بانو
لیکن اس آہ میں تاثیر کہاں سے آئی
غزل
دست قاتل میں یہ شمشیر کہاں سے آئی
شکیلہ بانو