EN हिंदी
دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا | شیح شیری
dast-e-naseh jo mere jeb ko is bar laga

غزل

دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا

بقا اللہ بقاؔ

;

دست ناصح جو مرے جیب کو اس بار لگا
پھاڑوں ایسا کہ پھر اس میں نہ رہے تار لگا

پہنچی اس بت کو خبر نالۂ تنہائی کی
مدعی کون کھڑا تھا سر دیوار لگا

مرض عشق تمہارا تو یہ طوفاں ہے کہ میں
جس سے مذکور کیا اس کو یہ آزار لگا

جس کا ملاح بنا عشق وہ کشتی ڈوبی
اس کے کھیوے سے تو بیڑا نہ کوئی پار لگا

مرغ زیرک تھے تہہ دام نہ آئے ہرگز
اڑ گئے ہم سر صیاد پہ منقار لگا

درد یہ دل میں اٹھا رات کہ ہو گرم تپش
اڑ گیا سونے فلک میں پر‌ احرار لگا

پردۂ خاک سے دی مجھ کو کسی نے آواز
گور ہموار تھی سننے جو میں یکبار لگا

پھر تو غفلت زدہ تا خواب عدم ہے یاں تو
دیکھ لے ہم کو نہ ٹک دیدۂ بے دار لگا

جب میں دیکھوں ہوں تو کثرت ہے خریداروں کی
گھر میں اس غیرت یوسف کے ہے بازار لگا

کھینچ پیچھے کو قدم آہ میں یاں تک رویا
کہ مرے آگے بقاؔ در کا اک انبار لگا