دست بردار اگر آپ غضب سے ہو جائیں
ہر ستم بھول کے ہم آپ کے اب سے ہو جائیں
چودھویں شب ہے تو کھڑکی کے گرا دو پردے
کون جانے کہ وہ ناراض ہی شب سے ہو جائیں
ایک خوشبو کی طرح پھیلتے ہیں محفل میں
ایسے الفاظ ادا جو ترے لب سے ہو جائیں
نہ کوئی عشق ہے باقی نہ کوئی پرچم ہے
لوگ دیوانے بھلا کس کے سبب سے ہو جائیں
باندھ لو ہاتھ کہ پھیلیں نہ کسی کے آگے
سی لو یہ لب کہ کہیں وہ نہ طلب سے ہو جائیں
بات تو چھیڑ مرے دل کوئی قصہ تو سنا
کیا عجب ان کے بھی جذبات عجب سے ہو جائیں
غزل
دست بردار اگر آپ غضب سے ہو جائیں
جاوید اختر