دشت میں رات بناتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
اپنی آواز بجھاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
تنگئ وقت کا ماتم نہیں رکنے والا والا
عرصۂ ہجر بڑھاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں میں
دشمنوں سے وہی کرتا ہے حفاظت میری
جس کو آواز لگاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
راکھ کے ڈھیر پہ یہ ناچتے گاتے ہوئے لوگ
اب یہاں پھول کھلاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
جیت جائیں گے یہاں شور مچانے والے
گنگناتے ہوئے گاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
سب جہانگیر نیاموں سے نکل آئیں گے
اب تو زنجیر ہلاتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
غزل
دشت میں رات بناتے ہوئے ڈرتا ہوں میں
نعمان شوق