EN हिंदी
دشت میں پھول کھلا رکھا ہے | شیح شیری
dasht mein phul khila rakkha hai

غزل

دشت میں پھول کھلا رکھا ہے

حسن جمیل

;

دشت میں پھول کھلا رکھا ہے
ہم نے دل دل سے ملا رکھا ہے

تیری خاطر تجھے معلوم کہاں
ہم نے کس کس کو بھلا رکھا ہے

بس ترا ذکر نئی فکر کے ساتھ
ہجر میں اور تو کیا رکھا ہے

کیا خبر آج ہی کر ڈالیں ہم
کام جو کل پہ اٹھا رکھا ہے

اس نے رکھا ہے سکوں نیکی میں
اور گناہوں میں مزا رکھا ہے

آئینہ دیکھ رہے ہو یا پھر
خود کو تصویر بنا رکھا ہے

بیر اس کو ہی چراغوں سے ہوا
نام جس نے بھی ہوا رکھا ہے

فقط اپنی نہ رہی فکر جمیلؔ
ہم نے تیرا بھی پتا رکھا ہے