دشت میں مثل صدا کے تھے
کیا کیا نقش وفا کے تھے
توڑ گئے جو کعبۂ دل
بندے خاص خدا کے تھے
سال مہینے دن اور رات
جھونکے چار ہوا کے تھے
مجھ بے گھر کے پاس رہے
جتنے سیل بلا کے تھے
میں بھی تصورؔ ان میں تھا
جن کے تیر خطا کے تھے
غزل
دشت میں مثل صدا کے تھے
ہربنس تصور