دشت میں چھاؤں کوئی ڈھونڈ نکالی جائے
اپنی ہی ذات کی دیوار بنا لی جائے
یہ تو ممکن ہے کہ دیوار گرا دیں لیکن
کیسے گرتی ہوئی دیوار سنبھالی جائے
ڈھونڈھنا ہوگا خد و خال کی دنیا میں جسے
پہلے اس شخص کی تصویر بنا لی جائے
دل ہو فیاض تو بس ایک ہی در کافی ہے
کیا ضروری ہے کہ ہر در پہ سوالی جائے
تم جو بولے تو ملی ذوق انا کو تسکین
مجھ کو ڈر تھا مری آواز نہ خالی جائے
لکھ تو دیں ہر در و دیوار پہ عابدؔ لیکن
بات ایسی ہے کہ سینے میں چھپا لی جائے
غزل
دشت میں چھاؤں کوئی ڈھونڈ نکالی جائے
عابد کرہانی