EN हिंदी
دشت لے جائے کہ گھر لے جائے | شیح شیری
dasht le jae ki ghar le jae

غزل

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے

ثروت حسین

;

دشت لے جائے کہ گھر لے جائے
تیری آواز جدھر لے جائے

اب یہی سوچ رہی ہیں آنکھیں
کوئی تا حد نظر لے جائے

منزلیں بجھ گئیں چہروں کی طرح
اب جدھر راہ گزر لے جائے

تیری آشفتہ مزاجی اے دل
کیا خبر کون نگر لے جائے

سایۂ ابر سے پوچھو ثروتؔ
اپنے ہم راہ اگر لے جائے