دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا
سب ادھر ہی جا رہے ہیں دشت میں میلہ لگے گا
تیر بن کر خیر سے ہر دل پہ جب سیدھا لگے گا
شعر میرا دشمنوں کو بھی بہت اچھا لگے گا
خیر حشر آرزو پر تو تمہارا بس نہیں ہے
آرزو تو کر لو یارو آرزو میں کیا لگے گا
فصل گل جو کر رہی ہے سامنے ہے دیکھ لیجے
میں کروں گا کچھ تو نام اب میری وحشت کا لگے گا
نسبتاً ہی ٹھیک ہوتی ہے نظر کی بات مثلاً
ہم نہیں ہوں گے تو ہر کوتاہ قد لمبا لگے گا
سرسری انداز سے دیکھوگے تو محفل ہی محفل
غور سے دیکھوگے تو ہر آدمی تنہا لگے گا
زندگی پر غور کرنا چھوڑ دوگے جب شجاعؔ
آہ بھی دے گی مزا اور درد بھی میٹھا لگے گا
غزل
دشت کو جا تو رہے ہو سوچ لو کیسا لگے گا
شجاع خاور