EN हिंदी
دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے | شیح شیری
dasht ki pyas baDhane ke liye aae the

غزل

دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے

سعد اللہ شاہ

;

دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے
ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے

ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی
تم کسی اور زمانے کے لیے آئے تھے

اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو جھپکیں کیسے
جو ترا عکس چرانے کے لیے آئے تھے

موج در موج ہوا آب رواں قوس قزح
تارے آنکھوں میں نہانے کے لیے آئے تھے

لوگ کہتے ہی رہے سعدؔ بتاؤ کچھ تو
ہم کہ بس اشک بہانے کے لیے آئے تھے