دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے
ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے
ایسے لگتا ہے کہ ہم ہی سے کوئی بھول ہوئی
تم کسی اور زمانے کے لیے آئے تھے
اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو جھپکیں کیسے
جو ترا عکس چرانے کے لیے آئے تھے
موج در موج ہوا آب رواں قوس قزح
تارے آنکھوں میں نہانے کے لیے آئے تھے
لوگ کہتے ہی رہے سعدؔ بتاؤ کچھ تو
ہم کہ بس اشک بہانے کے لیے آئے تھے

غزل
دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے
سعد اللہ شاہ