EN हिंदी
دشت کی خاک بھی چھانی ہے | شیح شیری
dasht ki KHak bhi chhani hai

غزل

دشت کی خاک بھی چھانی ہے

وکاس شرما راز

;

دشت کی خاک بھی چھانی ہے
گھر سی کہاں ویرانی ہے

ایسی پیاس اور ایسا صبر
دریا پانی پانی ہے

کشتی والے ہیں مایوس
گھٹنوں گھٹنوں پانی ہے

کوئی یہ بھی سوچے گا
کیسے آگ بجھانی ہے

ہم نے چکھ کر دیکھ لیا
دنیا کھارا پانی ہے

ایک برس اور بیت گیا
کب تک خاک اڑانی ہے