دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو
عشق ہے دل میں تو وحشت کی فراوانی بھی ہو
راحت قلب و نظر تم ہو تشفی بھی تمہی
اور تم میرے لیے وجہہ پریشانی بھی ہو
سوکھی آنکھوں سے تکا کرتے ہیں سوئے آسماں
گریہ کرنے کو ہماری آنکھوں میں پانی بھی ہو
کم سے کم یہ فون ہی کا سلسلہ باقی رہے
ہجر مشکل ہے مگر کچھ اس میں آسانی بھی ہو
کیسی کیسی خواہشیں اس دل میں پاتی ہیں وجود
ہو انگیٹھی تم بھی ہو اور رات برفانی بھی ہو
دل دعا گو ہے شکیلؔ اطہر کہ اس کی طبع میں
ہوشیاری ہی نہیں تھوڑی سی نادانی بھی ہو
غزل
دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو
اطہر شکیل