EN हिंदी
دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو | شیح شیری
dasht ki aawargi ho chaak-damani bhi ho

غزل

دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو

اطہر شکیل

;

دشت کی آوارگی ہو چاک دامانی بھی ہو
عشق ہے دل میں تو وحشت کی فراوانی بھی ہو

راحت قلب و نظر تم ہو تشفی بھی تمہی
اور تم میرے لیے وجہہ پریشانی بھی ہو

سوکھی آنکھوں سے تکا کرتے ہیں سوئے آسماں
گریہ کرنے کو ہماری آنکھوں میں پانی بھی ہو

کم سے کم یہ فون ہی کا سلسلہ باقی رہے
ہجر مشکل ہے مگر کچھ اس میں آسانی بھی ہو

کیسی کیسی خواہشیں اس دل میں پاتی ہیں وجود
ہو انگیٹھی تم بھی ہو اور رات برفانی بھی ہو

دل دعا گو ہے شکیلؔ اطہر کہ اس کی طبع میں
ہوشیاری ہی نہیں تھوڑی سی نادانی بھی ہو