EN हिंदी
دشت وحشت کو پھر آباد کروں گا اک دن | شیح شیری
dasht-e-wahshat ko phir aabaad karunga ek din

غزل

دشت وحشت کو پھر آباد کروں گا اک دن

شاہد کمال

;

دشت وحشت کو پھر آباد کروں گا اک دن
تو نہ ہوگا تو تجھے یاد کروں گا اک دن

اپنے ہاتھوں سے گرفتار کروں گا خود کو
خود کو میں خود سے پھر آزاد کروں گا اک دن

آئنہ سے میں کروں گا تری تمثال کشید
پھر ترے عکس کو ہم زاد کروں گا اک دن

میرا دشمن کف افسوس ملے گا جاناں
خود کو اس طرح سے برباد کروں گا اک دن

میں یہ سنتا ہوں کہ یہ کار محبت ہے ثواب
میں بھی اس کام میں امداد کروں گا اک دن

اپنی ہر بات پہ تنقید کروں گا خود ہی
اپنے ہی آپ پہ ایراد کروں گا اک دن

بھول کر بھی نہ بھلا پائے گی دنیا مجھ کو
دیکھنا وہ سخن ایجاد کروں گا اک دن

داد خود دیں گے ہر اک شعر پہ غالبؔ مجھ کو
میرؔ صاحب کو بھی استاد کروں گا اک دن