دشت تنہائی میں ہم خاک اڑا دیتے ہیں
شب کی خاموشی میں یادوں کو صدا دیتے ہیں
دن گزرتے ہیں طواف در جاناں کرتے
اپنی راتوں کو بھی آنکھوں میں گنوا دیتے ہیں
رات بھی بیت گئی تارے بھی سب ڈوب چلے
اپنے اشکوں کو بھی پلکوں میں چھپا دیتے ہیں
اپنے اطوار پہ نادم نہ ہوں محفل میں عزیز
چہرے چھپ جائیں چراغوں کو بجھا دیتے ہیں
تم پریشان ہو کیوں ہم تو تمہاری خاطر
اب بھی چاہو تو ہر اک بات بھلا دیتے ہیں
غزل
دشت تنہائی میں ہم خاک اڑا دیتے ہیں
ستیہ نند جاوا