دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے
شعلوں کے آبشار میں گلنار رہ گئے
تیرے وصال و ہجر گئے تو گیا مگر
تیری شباہتوں کے سب آزار رہ گئے
جن پر ترے گلاب سے چہرے کے عکس ہیں
میری نظر میں وہ در و دیوار رہ گئے
وہ تو امیر شہر کی آغوش میں گیا
اس کی گلی میں آئنہ بردار رہ گئے
ہم نے لکھے حروف غم جاں ورق ورق
پڑھنے کو گیسو و لب و رخسار رہ گئے
زخم ہنر کے چاہنے والے نہیں رہے
خوش رنگ شہرتوں کے خریدار رہ گئے
جلنے لگے بدن تو برسنے لگا لہو
سورج کی راہ میں رسن و دار رہ گئے
غزل
دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے
جاذب قریشی