EN हिंदी
دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے | شیح شیری
dasht-e-dua mein tere parastar rah gae

غزل

دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے

جاذب قریشی

;

دشت دعا میں تیرے پرستار رہ گئے
شعلوں کے آبشار میں گلنار رہ گئے

تیرے وصال و ہجر گئے تو گیا مگر
تیری شباہتوں کے سب آزار رہ گئے

جن پر ترے گلاب سے چہرے کے عکس ہیں
میری نظر میں وہ در و دیوار رہ گئے

وہ تو امیر شہر کی آغوش میں گیا
اس کی گلی میں آئنہ بردار رہ گئے

ہم نے لکھے حروف غم جاں ورق ورق
پڑھنے کو گیسو و لب و رخسار رہ گئے

زخم ہنر کے چاہنے والے نہیں رہے
خوش رنگ شہرتوں کے خریدار رہ گئے

جلنے لگے بدن تو برسنے لگا لہو
سورج کی راہ میں رسن و دار رہ گئے