دشت در دشت پھرا کرتا ہوں پیاسا ہوں میں
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ دریا ہوں میں
تنگ صحرا نظر آیا ہے جو پھیلا ہوں میں
ہو گئی ہے مری تصویر جو سمٹا ہوں میں
جستجو جس کی سفینوں کو رہی ہے صدیوں
دوستو میرے وہ بے نام جزیرہ ہوں میں
کس لیے مجھ پہ ہے یہ سست روی کا الزام
زندگی دیکھ لے خود تیرا سراپا ہوں میں
آرزو میرے قدم کی تھی کبھی راہوں کو
آج لیکن دل امکاں میں کھٹکتا ہوں میں
پڑھ سکو گر تو کھلیں تم پہ رموز ہستی
وقت کے ہاتھ میں اک ایسا صحیفہ ہوں میں
انجمن ہوں میں کبھی ذات سے اپنی شبلیؔ
اور محفل میں بھی رہ کر کبھی تنہا ہوں میں
غزل
دشت در دشت پھرا کرتا ہوں پیاسا ہوں میں
علقمہ شبلی