دریافت کر لیا ہے بسایا نہیں مجھے
سامان رکھ دیا ہے سجایا نہیں مجھے
کیسا عجیب شخص ہے اٹھ کر چلا گیا
برباد ہو گیا تو بتایا نہیں مجھے
وہ میرے خواب لے کے سرہانے کھڑا رہا
میں سو رہی تھی اس نے جگایا نہیں مجھے
بازی تو اس کے ہاتھ تھی پھر بھی نہ جانے کیوں
مہرہ سمجھ کے اس نے بڑھایا نہیں مجھے
اس نے ہزار عہد محبت کے باوجود
جو راز پوچھتی ہوں بتایا نہیں مجھے
وہ انتہائے شوق تھی یا انتہائے ضبط
تنہائی میں بھی ہاتھ لگایا نہیں مجھے
غزل
دریافت کر لیا ہے بسایا نہیں مجھے
آصفہ نشاط