دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں
ہر شخص با شعور ہے میں بے شعور ہوں
ہجرت مرا نصیب ہے پرواز مشغلہ
گنبد کے دائرے میں مثال طیور ہوں
گندم کی خوشبو رقص میں رکھتی ہے رات دن
مستی بھری شراب کے نشے میں چور ہوں
صدیوں سے بے لباس دریدہ بدن اداس
تصویر کائنات میں بے رنگ و نور ہوں
بوسیدہ سی کتاب کا اک حاشیہ ہو تم
لوح ازل پہ لکھا میں بین السطور ہوں
میرا وجود پانی ہوا مٹی اور آگ
بکھری ہوئی انا ہوں سلگتا غرور ہوں
فرد عمل نوشتۂ تقدیر پڑھ چکا
خاموش سر جھکائے خود اپنے حضور ہوں
کھینچا نہیں حصار کوئی اپنے ارد گرد
عشرتؔ میں اپنی ذات میں تنہا ضرور ہوں
غزل
دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں
عشرت قادری