EN हिंदी
دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں | شیح شیری
daryaft kar ke KHud ko zamane se dur hun

غزل

دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں

عشرت قادری

;

دریافت کر کے خود کو زمانے سے دور ہوں
ہر شخص با شعور ہے میں بے شعور ہوں

ہجرت مرا نصیب ہے پرواز مشغلہ
گنبد کے دائرے میں مثال طیور ہوں

گندم کی خوشبو رقص میں رکھتی ہے رات دن
مستی بھری شراب کے نشے میں چور ہوں

صدیوں سے بے لباس دریدہ بدن اداس
تصویر کائنات میں بے رنگ و نور ہوں

بوسیدہ سی کتاب کا اک حاشیہ ہو تم
لوح ازل پہ لکھا میں بین السطور ہوں

میرا وجود پانی ہوا مٹی اور آگ
بکھری ہوئی انا ہوں سلگتا غرور ہوں

فرد عمل نوشتۂ تقدیر پڑھ چکا
خاموش سر جھکائے خود اپنے حضور ہوں

کھینچا نہیں حصار کوئی اپنے ارد گرد
عشرتؔ میں اپنی ذات میں تنہا ضرور ہوں