EN हिंदी
دروازے کو پیٹ رہا ہوں پیہم چیخ رہا ہوں | شیح شیری
darwaze ko piT raha hun paiham chiKH raha hun

غزل

دروازے کو پیٹ رہا ہوں پیہم چیخ رہا ہوں

صادق

;

دروازے کو پیٹ رہا ہوں پیہم چیخ رہا ہوں
اندر آ کر کھل جا سم سم کہنا بھول گیا ہوں

کھوج میں تیری ان گن ٹرامیں اور بسیں چھانی ہیں
کولتار کی سڑکوں پر میلوں پیدل گھوما ہوں

بے پایاں آکاش کے مقناطیسی جال سے بچ کر
خوف زدہ سا میں دھرتی کے سینے سے چمٹا ہوں

برسوں پہلے بکھر گئی تھی ٹوٹ کے جو صحرا میں
اس لڑکی کے جسم کے بکھرے ٹکڑوں کو چنتا ہوں

ماں کی کوکھ سے قبر کا رستہ دور نہیں تھا پھر بھی
میں جیون کی بھول بھلیاں سے ہو کر گزرا ہوں

شاید میرا دکھ سننے کو وا ہوں گوش کسی کے
دن بھر بہروں ڈونڈوں کی نگری میں چلاتا ہوں