دروازے کے اندر اک دروازہ اور
چھپا ہوا ہے مجھ میں جانے کیا کیا اور
کوئی انت نہیں من کے سونے پن کا
سناٹے کے پار ہے اک سناٹا اور
کبھی تو لگتا ہے جتنا ہے کافی ہے
اور کبھی لگتا ہے اور ذرا سا اور
سچ کہنے پر خوش ہونا تو دور رہا
کیا زمانے نے مجھ کو شرمندہ اور
عجب مسافر ہوں میں میرا سفر عجیب
میری منزل اور ہے میرا رستہ اور
اوروں جیسے اور نہ جانے کتنے ہیں
کوئی کہاں ہے لیکن میرے جیسا اور
غزل
دروازے کے اندر اک دروازہ اور
راجیش ریڈی