دروازۂ ہستی سے نہ املاک سے نکلا
پیغام وفا خوشبوئے ادراک سے نکلا
پھر آج کریدی گئی وہ خاک نشیمن
پھر گوہر مقصود اسی خاک سے نکلا
ہر بار مجھے میرے مقدر نے صدا دی
جب بھی کوئی تارہ در افلاک سے نکلا
اس بار تو مجنوں کا بھرم بھی نہیں رکھا
یوں میرا جنوں پیرہن چاک سے نکلا
دنیا کی زبانوں پہ رہے خوف کے تالے
بس حق تو مرے لہجۂ بے باک سے نکلا
محسوس ہوا اور بھی حصے ہیں اسی میں
اک پرزۂ دل جب خس و خاشاک سے نکلا
غزل
دروازۂ ہستی سے نہ املاک سے نکلا
عزم شاکری