EN हिंदी
درون جسم کی دیوار سے ابھرتی ہے | شیح شیری
darun-e-jism ki diwar se ubharti hai

غزل

درون جسم کی دیوار سے ابھرتی ہے

عامر نظر

;

درون جسم کی دیوار سے ابھرتی ہے
کوئی لکیر ہے جو ٹوٹتی بکھرتی ہے

میں انتشار کی کچھ اور تلخیاں پی لوں
زبان شہر نئے ذائقوں سے ڈرتی ہے

فلک کے درمیاں اپنی صدا کریں محفوظ
کہ ہر دریچے پہ آواز جا کے مرتی ہے

کوئی تو سرحد خاموش توڑ سکتا تھا
سکوت شام یہاں تہہ بہ تہہ اترتی ہے

وہ اک شعاع برہنہ ہے شب کے زینے پر
سو میری آنکھ بھی اس پر کہاں ٹھہرتی ہے

نواح زیست کا سورج تو ڈھل گیا عامرؔ
تمیز خاک مگر اب بھی رقص کرتی ہے