درون جسم کی دیوار سے ابھرتی ہے
کوئی لکیر ہے جو ٹوٹتی بکھرتی ہے
میں انتشار کی کچھ اور تلخیاں پی لوں
زبان شہر نئے ذائقوں سے ڈرتی ہے
فلک کے درمیاں اپنی صدا کریں محفوظ
کہ ہر دریچے پہ آواز جا کے مرتی ہے
کوئی تو سرحد خاموش توڑ سکتا تھا
سکوت شام یہاں تہہ بہ تہہ اترتی ہے
وہ اک شعاع برہنہ ہے شب کے زینے پر
سو میری آنکھ بھی اس پر کہاں ٹھہرتی ہے
نواح زیست کا سورج تو ڈھل گیا عامرؔ
تمیز خاک مگر اب بھی رقص کرتی ہے
غزل
درون جسم کی دیوار سے ابھرتی ہے
عامر نظر