EN हिंदी
درون حلقۂ زنجیر ہوں میں | شیح شیری
darun-e-halqa-e-zanjir hun main

غزل

درون حلقۂ زنجیر ہوں میں

یعقوب تصور

;

درون حلقۂ زنجیر ہوں میں
شکستہ خواب کی تعبیر ہوں میں

مجھے حیرت سے یوں وہ تک رہا ہے
کہ جیسے میں نہیں تصویر ہوں میں

مری باتیں تو زہریلی بہت ہیں
مگر تریاک کی تاثیر ہوں میں

میں زندہ ہوں حصار بے حسی میں
محبت کی نئی تفسیر ہوں میں

اک آئنہ بھی ہوں اور عکس بھی ہوں
کہ شہر سنگ کا رہ گیر ہوں میں

نماز شب کا سجدہ ہوں تصورؔ
اذان صبح کی تکبیر ہوں میں