ڈرتے ہیں چشم و زلف و نگاہ و ادا سے ہم
ہر دم پناہ مانگتے ہیں ہر بلا سے ہم
معشوق جائے حور ملے مے بجائے آب
محشر میں دو سوال کریں گے خدا سے ہم
گر تو کسی بہانے آ جائے وقت نزع
ظالم کریں ہزار بہانے قضا سے ہم
گو حال دل چھپاتے ہیں پر اس کو کیا کریں
آتے ہیں خودبخود نظر اک مبتلا سے ہم
ناچار اختیار کیا شیوۂ رقیب
کچھ بے حیائی خوب ہیں گزرے حیا سے ہم
مانگی نہ ہوگی خضر نے یوں عمر جاوداں
کیا اپنی موت مانگتے ہیں التجا سے ہم
دیکھیں تو پہلے کون مٹے اس کی راہ میں
بیٹھے ہیں شرط باندھ کے ہر نقش پا سے ہم
مجبور اپنی شیوۂ شرم و حیا سے تم
ناچار اضطراب دل مبتلا سے ہم
یہ آرزو ہے آنکھ میں سرمہ لگائیں گے
اے داغؔ خاک پائے رسول خدا سے ہم
غزل
ڈرتے ہیں چشم و زلف و نگاہ و ادا سے ہم
داغؔ دہلوی