درپن دیا ہوں دل کا میں اس دل ربا کے ہاتھ
درپن میں وہ پیا ہے وہ درپن پیا کے ہاتھ
اس قبلہ رو کی دیکھ کے محراب ابر واں
صف باندھ کھل رہے ہیں مژہ جیوں دعا کے ہاتھ
ہر وقت بے حجاب ہو کیوں کر کرے نگاہ
ہے اختیار چشم پیا کا حیا کے ہاتھ
کس رنگ سوں لگے ہے کف پا کوں شوخ کی
دل خون ہو رہا ہے ہمارا حنا کے ہاتھ
گلگوں قبا نہ مار تغافل کی تیغ سوں
ہے قتل عاشقاں کا تری یک ادا کے ہاتھ
برجا ہے برگ گل سوں کفن اس کوں ہوئے نصیب
جو کوئی ہوا شہید وو گل گوں قبا کے ہاتھ
ہے چاک چاک غنچۂ دل آج آہ سوں
جیوں چاک پیرہن کوں کیا گل صبا کے ہاتھ
کہتے ہیں عاشقاں یو مرا حال دیکھ کر
شاید توں دل دیا ہے کسی بے وفا کے ہاتھ
درکار نیں ہے مجھ کوں کبوتر کی قاصدی
بھیجا ہوں گل بدن کوں میں نامہ صبا کے ہاتھ
غزل
درپن دیا ہوں دل کا میں اس دل ربا کے ہاتھ
داؤد اورنگ آبادی