دریاؤں کے ستم سے بچاتا رہے کوئی
خوابیدہ ساحلوں کو جگاتا رہے کوئی
صدیوں پرانی خاک سے تعمیر جسم میں
کب تک لہو کا بار اٹھاتا رہے کوئی
جو لوگ روز و شب کے تعاقب میں چل دئے
واپس انہیں سفر سے بلاتا رہے کوئی
پرواز کے اسیر ہوئے میرے بال و پر
اونچائیوں سے مجھ کو گراتا رہے کوئی
کب تک غموں سے چور سوالوں کی کھیتیاں
سیلاب جستجو سے بچاتا رہے کوئی
بیمار موسموں کا مداوا محال ہے
آنکھوں میں لاکھ رنگ سجاتا رہے کوئی
غزل
دریاؤں کے ستم سے بچاتا رہے کوئی
مرغوب حسن