دریاؤں کا صحراؤں میں بہنا مرا قصہ
قصے میں کوئی بات نہ کہنا مرا قصہ
تھا حرف ملامت وہ مرا کاغذی ملبوس
لوگوں نے مگر شوق سے پہنا مرا قصہ
چلنے دو مجھی پر مری آواز کے نشتر
تم اپنی سماعت پہ نہ سہنا مرا قصہ
پوشاک بدلتا رہا بدلی جو کبھی رت
میں پھر بھی برہنہ ہوں برہنہ مرا قصہ
میں زندہ ہوں تجھ سے تری زیبائشیں مجھ سے
یہ نور کا ہالہ تیرا گہنہ مرا قصہ
لب کھولتی کلیوں کا قرینہ تری گفتار
باتوں کی مہک اوڑھتے رہنا مرا قصہ

غزل
دریاؤں کا صحراؤں میں بہنا مرا قصہ
رشید قیصرانی