دریا طوفان بہہ رہا ہے
آنکھوں کا عجیب ماجرا ہے
زاہد کو غرور زہد کا ہے
رندوں کو خدا کا آسرا ہے
ذکر ان کے دہن کا جا بجا ہے
ہے کچھ بھی نہیں یہ بات کیا ہے
دیوار کا ان کی سایہ ٹھہرا
اک یہ بھی سعادت ہما ہے
ہم چشمی اور ان کی انکھڑیوں سے
نرگس تجھے کچھ بھی سوجھتا ہے
پاؤں کے ہمارے گو کھروسی
اک اک کانٹا کھٹک گیا ہے
الفت ہے کھلی ہوئی بتوں سے
اللہ سے مہرؔ کیا چھپا ہے

غزل
دریا طوفان بہہ رہا ہے
حاتم علی مہر