EN हिंदी
دریا و کوہ و دشت و ہوا ارض اور سما | شیح شیری
dariya o koh o dasht o hawa arz aur sama

غزل

دریا و کوہ و دشت و ہوا ارض اور سما

نظیر اکبرآبادی

;

دریا و کوہ و دشت و ہوا ارض اور سما
دیکھا تو ہر مکاں میں وہی ہے رہا سما

ہے کون سی وہ چشم نہیں جس میں اس کا نور
ہے کون سا وہ دل کہ نہیں جس میں اس کی جا

قمری اسی کی یاد میں کو‌ کو کرے ہے یار
بلبل اسی کے شوق میں کرتی ہے چہچہا

مفلس کہیں غریب تونگر کہیں غنی
عاجز کہیں نبل کہیں سلطاں کہیں گدا

بہروپ سا بنا کے ہر اک جا وہ آن آن
کس کس طرح کے روپ بدلتا ہے واہ وا

ملک رضا میں کر کے توکل کی جنس کو
بیٹھیں ہیں سب اسی کی دکانیں لگا لگا

سب کا اسی دکان سے جاری ہے کاروبار
لیتا ہے کوئی حسن کوئی دل ہے بیچتا

دیکھا جو خوب غور سے ہم نے تو یاں نظیرؔ
بازار مصطفیٰ ہے خریدار ہے خدا