EN हिंदी
دریا نظر نہ آئے نہ صحرا دکھائی دے | شیح شیری
dariya nazar na aae na sahra dikhai de

غزل

دریا نظر نہ آئے نہ صحرا دکھائی دے

اختر مسلمی

;

دریا نظر نہ آئے نہ صحرا دکھائی دے
جوش جنوں ہو جس کو اسے کیا دکھائی دے

میں آ گیا کہاں کہ یہ حسرت نظر کو ہے
اے کاش اس جگہ کوئی اپنا دکھائی دے

خنداں جبیں لبوں پہ ہنسی پرخلوص دل
دور طرب میں کوئی تو ایسا دکھائی دے

خواہاں ہیں وہ کہ سارا زمانہ ہو ان کے ساتھ
اوروں کو چاہتے ہیں کہ تنہا دکھائی دے

اخترؔ کو دیکھتے نہیں اچھی نظر سے آپ
پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ اچھا دکھائی دے