دریا نظر نہ آئے نہ صحرا دکھائی دے
جوش جنوں ہو جس کو اسے کیا دکھائی دے
میں آ گیا کہاں کہ یہ حسرت نظر کو ہے
اے کاش اس جگہ کوئی اپنا دکھائی دے
خنداں جبیں لبوں پہ ہنسی پرخلوص دل
دور طرب میں کوئی تو ایسا دکھائی دے
خواہاں ہیں وہ کہ سارا زمانہ ہو ان کے ساتھ
اوروں کو چاہتے ہیں کہ تنہا دکھائی دے
اخترؔ کو دیکھتے نہیں اچھی نظر سے آپ
پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ اچھا دکھائی دے
غزل
دریا نظر نہ آئے نہ صحرا دکھائی دے
اختر مسلمی