EN हिंदी
دریا میں طغیانی ہے | شیح شیری
dariya mein tughyani hai

غزل

دریا میں طغیانی ہے

تنویر گوہر

;

دریا میں طغیانی ہے
بستی بستی پانی ہے

آہ کہ جنگل ہیں آباد
شہروں میں ویرانی ہے

مشکل سے اب کیا ڈرنا
اس میں ہی آسانی ہے

دنیا کی کیا چاہ کریں
دنیا آنی جانی ہے

اس کو تو پچھتانا ہے
جس نے دل کی مانی ہے

میں بھی من کا راجا ہوں
وہ بھی دل کی رانی ہے

اے دل اس کو بھول بھی جا
یہ کیسی من مانی ہے

موت سے گوہرؔ ڈرنا کیا
موت تو اک دن آنی ہے