دریا کی طرف دیکھ لو اک بار مرے یار
اک موج کہ کہتی ہے مرے یار مرے یار
ویرانیٔ گلشن پہ ہی معمور ہے موسم
مٹی سے نکلتے نہیں اشجار مرے یار
کیا خاک کسی غیر پہ دل کو ہو بھروسا
اپنے بھی ہوئے جاتے ہیں اغیار مرے یار
مقتل سی فضا رہتی ہے اس ملک میں ہر دم
دیکھے ہیں کئی منظر خوں بار مرے یار
ہم خاک نشینوں کی یہاں کون سنے گا
اونچے ہیں بہت خواب کے دربار مرے یار
دیکھو یہ چلن ٹھیک نہیں عشق میں ہرگز
وعدے سے مکر جاتے ہو ہر بار مرے یار
دو چار ہی الفاظ محبت سے بھرے ہوں
تو دشت کو کر دیتے ہیں گلزار مرے یار
حسانؔ جواں خوب تری مشق سخن ہے
ہر روز کہے جاتے ہو اشعار مرے یار
غزل
دریا کی طرف دیکھ لو اک بار مرے یار
حسان احمد اعوان