EN हिंदी
دریا کا چڑھاؤ دیکھتا ہوں | شیح شیری
dariya ka chaDhaw dekhta hun

غزل

دریا کا چڑھاؤ دیکھتا ہوں

جمیلؔ مظہری

;

دریا کا چڑھاؤ دیکھتا ہوں
تنکوں کا بہاؤ دیکھتا ہوں

تم دیکھو بلندی آسماں کی
میں اس کا جھکاؤ دیکھتا ہوں

کل پیش نظر تھی تیغ ابرو
اب سینے کا گھاؤ دیکھتا ہوں

وہ آئیں نہ آئیں کون جانے
آئی ہوئی ناؤ دیکھتا ہوں

سنتا ہوں کراہ لکڑیوں کی
جلتے ہیں الاؤ دیکھتا ہوں

آسان نہیں ہے دل کی چوری
تم آنکھ چراؤ دیکھتا ہوں

منجدھار میں ہوگی کوئی کشتی
ساحل پہ جماؤ دیکھتا ہوں

تم آگ میں میری جل رہی ہو
میں دور سے تاؤ دیکھتا ہوں

اپنے کو جمیلؔ بیچنا ہے
بازار کا بھاؤ دیکھتا ہوں