دریا کا چڑھاؤ باندھ لینا
سیلاب میں ناؤ باندھ لینا
شہروں کے غبار اڑ رہے ہیں
صحرا کی ہواؤ باندھ لینا
بارش میں پھرا ہوں شب ہوئی ہے
زلفوں کی گھٹاؤ باندھ لینا
زخموں کی نمائشیں نہیں خوب
یہ زیست کے گھاؤ باندھ لینا
آمادۂ سرکشی ہیں جذبات
میرے قریب آؤ باندھ لینا
عالم کی رگیں سی ٹوٹتی ہیں
جسموں کے کھنچاؤ باندھ لینا
کیوں رخ پہ ہوائیاں اڑی ہیں
پھر ہم سے لگاؤ باندھ لینا
غزل
دریا کا چڑھاؤ باندھ لینا
ذکاء الدین شایاں