EN हिंदी
دریا دور نہیں اور پیاسا رہ سکتا ہوں | شیح شیری
dariya dur nahin aur pyasa rah sakta hun

غزل

دریا دور نہیں اور پیاسا رہ سکتا ہوں

ظفر اقبال

;

دریا دور نہیں اور پیاسا رہ سکتا ہوں
اس سے ملے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں

اس کی بے توفیق محبت کے جنگل میں
آدھا گم ہو کر بھی آدھا رہ سکتا ہوں

کیسا رہتا ہوں مت پوچھو شہر میں اس کے
ویسا ہی رہتا ہوں جیسا رہ سکتا ہوں

تنہا رہنے میں بھی کوئی عذر نہیں ہے
لیکن اس کے ساتھ ہی تنہا رہ سکتا ہوں

وہ بھی دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہے
میں بھی ابھی اس شاخ سے الجھا رہ سکتا ہوں

کچھ مجھ کو خود بھی اندازہ ہونا چاہیئے
کتنا ضائع ہو کر کتنا رہ سکتا ہوں

جس حالت سے نکل آیا ہوں کوشش کرکے
اس میں وہ چاہے تو دوبارہ رہ سکتا ہوں

ایک انوکھے خواب کے اندر سوتے جاگتے
رہتا ہوں میں اور ہمیشہ رہ سکتا ہوں

جتنے فاصلے پر رکھتا ہے ظفرؔ وہ مجھ کو
رہ بھی سکتا ہوں لیکن کیا رہ سکتا ہوں