EN हिंदी
دریا دلی سے ابر کرم بھی نہیں ملا | شیح شیری
dariya-dili se abr-e-karam bhi nahin mila

غزل

دریا دلی سے ابر کرم بھی نہیں ملا

منور رانا

;

دریا دلی سے ابر کرم بھی نہیں ملا
لیکن مجھے نصیب سے کم بھی نہیں ملا

پھر انگلیوں کو خوں میں ڈبونا پڑا ہمیں
جب ہم کو مانگنے پہ قلم بھی نہیں ملا

سچ بولنے کی راہ میں تنہا ہمیں ملے
اس راستے میں شیخ حرم بھی نہیں ملا

میں نے تو ساری عمر نبھائی ہے دوستی
وہ مجھ سے کھا کے میری قسم بھی نہیں ملا

دل کو خوشی بھی حد سے زیادہ نہیں ملی
کاسے کے اعتبار سے غم بھی نہیں ملا